jannat Ky pattay nawl by nimra Ahmed

0
28

jannat Ky pattay nawl by nimra Ahmed

لیپ ٹاپ سامنے تکیے پر رکھا ہوا تھا۔ وہ بیڈ پر کہنیوں کے بل اوندھی لیٹی ہوئی تھی۔ اسکرین کی روشنی اس کے چہرے کو چمکار ہی تھی۔ وہ تھوڑی تلے ہتھیلی رکھے دوسرے ہاتھ کی ایک انگلی لیپ ٹاپ کے بیچ پیڈ پر پھیر رہی تھی۔ لمبے سیدھے سیاہ بال سائڈ پر پڑے تھے۔ اس کی آنکھیں بھی ویسی ہی تھیں۔ سیاہ بڑی بڑی آنکھیں اور چاندنی جیسی چمک تھی۔ اور چہرہ ملائی کا بنا لگتا تھا۔ سفید ، صاف اور چکنا سا۔ وہ اسی مگن انداز میں سکرین پر نظریں مرکوز کیسے سٹیچ پیڈ پر انگلی پھیر رہی تھی۔ ایک کلک کے بعد کوئی صفحہ کھلا تو اس کی متحرک انگلی رک گئی۔ سکرین پر جمی آنکھوں میں ذرا تفکر ابھرا اور پھر بے چینی، اس نے جلدی جلدی دو تین بٹن دبائے۔

لوڈنگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگلے صفحے کے لوڈ ہونے کے انتظار کرتے ہوئے اسی مضطرب انداز میں

اس نے انگلی سے چہرے کی دائیں طرف سے پھسلتی لٹیں پیچھے کیں۔ چند سیکنڈ میں صفحہ لوڈ ہو گیا۔ وہ بے چین ہو کر چہرہ سکرین کے قریب لائی تو اس کے بالوں کی چند لٹیں پھسل کر پھر چہرے کے سامنے آگئیں۔ جیسے جیسے

وہ پڑھتی گئی اس کی آنکھیں حیرت سے پھیلتی گئیں۔ لب ذرا سے کھل گئے۔ اور پوراوجود بے یقینی میں ڈوب گیا۔ ڈھیر سارے لمحے لگے تھے اس کو خود کو یقین دلانے میں ، جو وہ پڑھ رہی تھی بالکل سچ ہے اور جیسے ہی اس کے ذہن نے یقین کی دھرتی کو چھوا، وہ ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔ اس کا فون سائیڈ ٹیبل پر رکھا تھا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر سیل اٹھایا اور جلدی جلدی کوئی نمبر ڈائیل کیا۔ رات کی مقدس خاموشی میں بٹنوں کی آواز نے ذرا

ارتعاش پیدا کیا۔ اس نے فون کان سے لگا یا دوسری طرف بیل جارہی تھی۔

“ہیلو زارا! ” شاید رابطہ مل گیا تھا۔ تب ہی وہ بے حد شوخی سے چہکی۔ کسی ہو ؟ سو تو نہیں گئی تھی ؟“ دوسری طرف اس کی دوست کچھ کہہ رہی تھی۔ وہ لمحے بھر کو سننے کے لئے رکھی، اور پھر ہنس پڑی۔ “ساری باتیں چھوڑو

میرے پاس جو بڑی خبر ہے وہ سنو! اس نے عادتا اپنے بالوں کی لٹ کو انگلی پر لیٹتے ہوئے کہا۔

تم یقین نہیں کروگی میں جانتی ہوں۔ ارے نہیں یار ! دلاور بھائی کی شادی کے بارے میں نہیں ہے”

دوسری طرف زارا نے کچھ کہا تو اس نے فورا تردید کی۔

کہ تم ایسا کرو گیس کرو، میں تمہیں کیا بتانے والی ہوں

اس نے ایک ہاتھ سے لیپ ٹاپ سائیڈ پر کیا اور تکیہ نکال کر بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر کہا۔ پھر اس نے ٹیک لگا کر پاؤں سیدھے کر لئے۔ ساتھ ساتھ وہ زارا کے اندازوں کی تردید بھی کیے جارہی تھی۔

” نہیں ! بالکل نہیں۔ ” ایسا تو بالکل بھی نہیں۔ ارے میری شادی بھی نہیں ہو رہی۔ جی نہیں ! ارم کی بھی نہیں ہو رہی۔ سیر یسلی زارا اجتمہاری سوچ بس یہی تک ہے۔ اب کان کھول کر سنو تم ، وہ آرمدیوس ایکسچینج پروگرام یاد ہے، جس کے لئے ہم نے اپلائی کیا تھا ؟

?can you believe it zara

یورپین یونین نے مجھے سکالر شپ کے لئے سلیکٹ کیا ہے۔ دوسری جانب زارا اتنی زور سے چیچنی کہ موبائل کا سپیکر بند ہونے کے باوجود بھی اس کی چیخ پورے کمرے میں گونجی تھی۔

” بالکل سچ کہ رہی ہوں زارا ! ابھی پندرہ منٹس پہلے مجھے یونیورسٹی کی میل ملی ہے۔“ اور ساتھ ہی لیپ ٹاپ کا رخ اپنی طرف موڑ کر دوبارہ غور سے سکرین کو دیکھا. ” جہاں پندرہ منٹ پہلے ہی سلیکشن میں آئی ہے۔ تم بھی فوراً چیک کرو! تم نے بھی apply کیا تھا، تمہیں بھی میل آئی ہو گی۔ وہ فون ایک ہاتھ میں پکڑ کر دوسرے ہاتھ سے لیپ ٹاپ آف کر رہی تھی۔

لیپ ٹاپ کی سکرین پر اندھیرا ہوا تو اس نے ہاتھ بڑھا کر سکرین کو بند کیا اور سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔ ”میں نے سبانجی کو نیٹ پر دیکھا ہے۔ بہت ہی خوبصورت یونیورسٹی ہے۔ مگر …… وہ تھوڑی دیر کو خاموش ہو گئی۔ دوسری طرف سے استفسار پر وہ پھر سے بولی تھی۔ بس ایک چھوٹا سا مسئلہ ہے ، ہم اپنی فیملیز کو اس کے بارے میں نہیں بتائیں گے۔“ دھیمی آواز میں بولتے ہوئے اس نے بند دروازے کو دیکھا۔ ” دراصل سانجی می لڑکیوں کے ہیڈ سکارف پر پابندی ہے۔ ادھر سر ڈھانپنا منع ہے۔ گھر والوں کو بتا کر متفکر کرنے کے بجائے اس بات کو گول کر جانا۔ ویسے بھی ہم دونوں ہی سکارف نہیں لیتیں۔ “ اس پل کھڑکی کے باہر کچھ کھڑ کا ہوا تھا۔ وہ چونک کر دیکھنے لگی۔ قد آدم کھڑکیوں کے آگے بھاری پر دے گرے ہوئے تھے۔ البتہ پیچھے جالیاں کھلی ہوئی

تھیں۔ شاید اس کا وہم تھا۔ وہ سر جھٹک کر فون کی طرف متوجہ ہو گئی.

” ابا نے مجھے کبھی سکارف لینے یا سر ڈھکنے پر مجبور نہیں کیا، تھینک گاؤ ! ہاں ارم گھر کے باہر سکارف لیتی ہے۔ اس کے ابو، تایا فرقان کچھ سخت ہیں ناں۔“ پھر وہ بیڈ سے ٹیک لگاتے ہوئے نیم دراز ہو کر بتانے لگی۔ ” پر مشن کا تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ابا اسپین جانے کی اجازت نہ دیتے۔ مگر ترکی میں سبین پھو پھو ر ہتیں ہیں۔ تو وہ مان گئے

تھے۔ ویسے بھی انہیں اپنی بیٹی پر پورا بھروسہ ہے۔“

پھر وہ چند لمحے اپنی دوست کی باتیں سنتی رہی۔ زارا خاموش ہوئی تو اس نے پھر نفی میں سر ہلایا۔

کل نہیں ! داور بھائی کی مہندی کل ہے۔ تم آرہی ہوں ناں ؟ اور ہاں میں اور ارم لہنگا پہن رہے ہیں۔ سارے کزنز بہت excited ہیں۔ خاندان کی پہلی شادی ہے نا۔ اوکے ! اب تم جا کر میل چیک کرو، میں بھی سوتی ہوں۔ رات بہت ہو گئی ہے۔“

 

الوداعی کلمات بولنے کے بعد اس نے فون تکیہ پر اچھال دیا۔ پھر باہر جانے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ باہر لاؤنج خاموشی میں ڈوبا ہوا تھا۔ حیا نے آہستہ سے اپنے کمرے کا دروازہ بند کیا۔ ننگے پاؤں چلتے لاؤنج سے کچن میں آئی۔ سیاہ قمیض اور کھلے ٹراوزر میں اس کا قد اور بھی دراز لگ رہا تھا ۔۔ کچن میں اندھیرا پھیلا ہوا تھا۔ وہ دروازے پر رکی اور ہاتھ بڑھا کر کچن کی لائٹ جلائی۔ ساری بتیاں جل گئیں۔ اس نے آگے بڑھ کر فریج کا دروازہ کھولا اور پانی کی بوتل نکالنے کو جھکی جھکنے سے بال پھل کر سامنے آگئے۔ حیانے نرمی سے ان کو پیچھے ہٹایا اور پانی کی بوتل لے کر سیدھی ہوئی۔ کاؤنٹر پر رکھے ریک سے گلاس اٹھایا اور پانی گلاس میں انڈیلنے لگی۔ تبھی اس کی نگاہ۔۔۔۔۔۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here